Test Update

اَ عشوائياً، بل إن له جذور في الأدب اللاتيني الكلاسيكي منذ


اَ عشوائياً، بل إن له جذور في الأدب اللاتيني الكلاسيكي منذ

ما فائدته ؟

هناك حقيقة مثبتة منذ زمن طويل وهي أن المحتوى المقروء لصفحة ما سيلهي القارئ عن التركيز على الشكل الخارجي للنص أو شكل توضع الفقرات في الصفحة التي يقرأها. ولذلك يتم استخدام طريقة لوريم إيبسوم لأنها تعطي توزيعاَ طبيعياَ -إلى حد ما- للأحرف عوضاً عن استخدام "هنا يوجد محتوى نصي، هنا يوجد محتوى نصي" فتجعلها تبدو (أي الأحرف) وكأنها نص مقروء. العديد من برامح النشر المكتبي وبرامح تحرير صفحات الويب تستخدم لوريم إيبسوم بشكل إفتراضي كنموذج عن النص، وإذا قمت بإدخال "lorem ipsum" في أي محرك بحث ستظهر العديد من المواقع الحديثة العهد في نتائج البحث. على مدى السنين ظهرت نسخ جديدة ومختلفة من نص لوريم إيبسوم، أحياناً عن طريق الصدفة، وأحياناً عن عمد كإدخال بعض العبارات الفكاهية إليها.

ما هو "لوريم إيبسوم" ؟

لوريم إيبسوم(Lorem Ipsum) هو ببساطة نص شكلي (بمعنى أن الغاية هي الشكل وليس المحتوى) ويُستخدم في صناعات المطابع ودور النشر. كان لوريم إيبسوم ولايزال المعيار للنص الشكلي منذ القرن الخامس عشر عندما قامت مطبعة مجهولة برص مجموعة من الأحرف بشكل عشوائي أخذتها من نص، لتكوّن كتيّب بمثابة دليل أو مرجع

شكلي لهذه

الأحرف. خمسة قرون من الزمن لم تقضي على هذا النص، بل انه حتى صار مستخدماً وبشكله الأصلي في الطباعة والتنضيد الإلكتروني. انتشر بشكل كبير في ستينيّات هذا القرن مع إصدار رقائق "ليتراسيت" (Letraset) البلاستيكية تحوي مقاطع من هذا النص، وعاد لينتشر مرة أخرى مؤخراَ مع ظهور برامج النشر الإلكتروني مثل "ألدوس بايج مايكر" (Aldus PageMaker) والتي حوت أيضاً على نسخ من نص لوريم إيبسوم.

أين أجده ؟

هنالك العديد من الأنواع المتوفرة لنصوص لوريم إيبسوم، ولكن الغالبية تم تعديلها بشكل ما عبر إدخال بعض النوادر أو الكلمات العشوائية إلى النص. إن كنت تريد أن تستخدم نص لوريم إيبسوم ما، عليك أن تتحقق أولاً أن ليس هناك أي كلمات أو عبارات محرجة أو غير لائقة مخبأة في هذا النص. بينما تعمل جميع مولّدات نصوص لوريم إيبسوم على الإنترنت على إعادة تكرار مقاطع من نص لوريم إيبسوم نفسه عدة مرات بما تتطلبه الحاجة، يقوم مولّدنا هذا باستخدام كلمات من قاموس يحوي على أكثر من 200 كلمة لا تينية، مضاف إليها مجموعة من الجمل النموذجية، لتكوين نص لوريم إيبسوم ذو شكل منطقي قريب إلى النص الحقيقي. وبالتالي يكون النص الناتح خالي من التكرار، أو أي كلمات أو عبارات غير لائقة أو ما شابه. وهذا ما يجعله أول مولّد نص لوريم إيبسوم حقيقي على الإنترنت.

ما أصله ؟

خلافاَ للإعتقاد السائد فإن لوريم إيبسوم ليس نصاَ عشوائياً، بل إن له جذور في الأدب اللاتيني الكلاسيكي منذ العام 45 قبل الميلاد، مما يجعله أكثر من 2000 عام في القدم. قام البروفيسور "ريتشارد ماك لينتوك" (Richard McClintock) وهو بروفيسور اللغة اللاتينية في جامعة هامبدن-سيدني في فيرجينيا بالبحث عن أصول كلمة لاتينية غامضة في نص لوريم إيبسوم وهي "consectetur"، وخلال تتبعه

لهذه الكلمة

في الأدب اللاتيني اكتشف المصدر الغير قابل للشك. فلقد اتضح أن كلمات نص لوريم إيبسوم تأتي من الأقسام 1.10.32 و 1.10.33 من كتاب "حول أقاصي الخير والشر" (de Finibus Bonorum et Malorum) للمفكر شيشيرون (Cicero) والذي كتبه في عام 45 قبل الميلاد. هذا الكتاب هو بمثابة مقالة علمية مطولة في نظرية الأخلاق، وكان له شعبية كبيرة في عصر النهضة. السطر الأول من لوريم إيبسوم "Lorem ipsum dolor sit amet.." يأتي من سطر في القسم 1.20.32 من هذا الكتاب.

للمهتمين ق

منا بوضع نص لوريم إبسوم القياسي والمُستخدم منذ القرن الخامس عشر في الأسفل. وتم أيضاً توفير الأقسام 1.10.32 و 1.10.33 من "حول أقاصي الخير والشر" (de Finibus Bonorum et Malorum) لمؤلفه شيشيرون (Cicero) بصيغها الأصلية، مرفقة بالنسخ الإنكليزية لها والتي قام بترجمتها هـ.راكهام (H. Rackham) في عام 1914.

رمضان: تجدید قرآن کا مہینا

زیر نظر شمارہ جب آپ تک پہنچے گا، خدا نے چاہا تواُس وقت ماہ رمضان کے مبارک دور کا آغاز ہونے والا ہوگا۔لہٰذا،مناسب 

معلوم ہوتاہے کہ اِس تعلق سے ایک ضروری بات آپ تک پہنچا دی جائے۔

ماہ رمضان کی آمد پر عموماً لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ رمضان میں ہمارا معمول کیا ہونا چاہیے، یا ہم رمضان کا مہینا کس طرح گزاریں؟اِس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ ذکر وعبادت کے علاوہ، رمضان کا''معمول'' اصلاً صرف ایک ہے، اور وہ ہے ـــــــ خالی الذہن ہوکر قرآن مجید کی تلاوت اور اُس کا مسلسل مطالعہ ۔جو لوگ براہ راست قرآن کے مطالب کا ادراک نہ کر سکتے ہوں، اِس مقصد کے لیے وہ تلاوت کے سا تھ اپنی معلوم اور مادری زبان میں باربار ترجمۂ قرآن کا گہرا مطالعہ کریں، وہ ایک مرتبہ بغورپورے قرآن کا ترجمہ ضرور پڑھیں۔

اِ س مطالعے کا مقصد قرآن کا علمی مطالعہ نہیں، بلکہ اِس کا مقصد عمومی طورپررمضان میں صرف ایک ہونا چاہیے، اور وہ ہے ـــــــ تذکیر و احتساب، یعنی اپنے متعلق اِس حقیقت کو دریافت کرنے کی کوشش کرنا کہ میرے خالق کو خود ''مجھ ''سے کیا چیزمطلوب ہے اورعملاً ''میں'' کس حد تک اُس پر قائم ہوں !

واقعات بتاتے ہیں کہ قرآن کا یہ مطالعہ ان شاء اللہ، ہمارے لیے ایک اووَرہالنگ کورس(Overhauling course) ثابت ہو گا۔ اِس طرح کا ایک ربانی تجربہ گویا اپنے آپ کو خدا کے رنگ (صِبغةُ اللّٰہ)میں رنگنے کی سعی مشکور کے ہم معنی ہے ۔

علمی ذوق رکھنے والے افراد ماہ رمضان میں اِس مطالعے کے دوران یہ کرسکتے ہیں کہ وہ نئے پیداشدہ سوالات ، یا جو چیز اُن کے ذہن کو اسٹرائک (strike) کرے، اُسے نوٹ کرلیں اور بعد میں وہ اِن سوالات پر غوروفکراور تحقیق کا سلسلہ جاری رکھیں ۔اِس طریق مطالعہ کا فائدہ یہ ہوگا کہ پورے قرآن کا اصل پیغا م خود خالق کی زبان میں آپ کے دل ودماغ پر نقش ہو جائے گا ۔اِس طرح آسانی کے ساتھ ایک کتاب ہدایت کی حیثیت سے قرآن کے ساتھ ہمارازندہ تعلق قائم ہو گا، ہمارے فکر وعمل کی اصلاح ہوگی اور ہمارے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ ہم قرآن کے زیر سایہ اپنی زندگی کا سفر طے کرسکیں ۔

رمضان کا یہ خصوصی عمل خود قرآن سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی سورۂ بقرہ میں روزہ اور رمضان کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: 'شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ٘ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًي لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰي وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ' (۲: ۱۸۵)، یعنی رمضان کا مہینا ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، لوگوں کے لیے رہنما بنا کر اور نہایت واضح دلائل کی صورت میں، جو سرتا سر ہدایت بھی ہے اور حق وباطل کے درمیان میں فیصلہ کرنے والا بھی۔سو تم میں سے جو شخص اِس مہینے میں موجود ہو، اُسے چاہیے کہ وہ اِس ماہ کے روزے رکھے۔

اِس آیت میں رمضان اور کلام الہٰی کی اہمیت سے متعلق واضح اشارہ موجود ہے۔روزہ اور قرآن کے اِس تعلق پر غور کیجیے تو ایک اہم حقیقت سامنے آتی ہے۔ وہ یہ کہ ذکر وعبادت کے دوسرے مراسم کے علاوہ، رمضان کی اصل عبادت قرآن مجید سے اپنے تعلق کی تجدید ہے، یعنی تلاوت اور تدبر کے ذریعے سے خدا کی ابدی رہنمائی کو سمجھنا اور اُس کو اپنی زندگی میں پوری طرح اختیار کرلینا۔

ایسی حالت میں یہ کہنا درست ہوگا کہ رمضان کی اصل عبادت اور اُس کا سب سے بڑا ''معمول'' قرآن کی تلاوت اور اُس پر تدبر ہے، یعنی روزہ دارانہ ماحول میں ہر طرح کے انتشار (distraction) سے بچ کر قرآن مجید کو پڑھنا، اُس پر غور وفکرکرنا اور اُس سے اپنے تعلق کی تجدید کا عہد کرنا۔یہی رمضان کا اصل 'وظیفہ' ہے اور یہی رمضان کا اصل 'معمول' ـــــــ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو رمضان کو اِس طرح پائیں کہ وہ اُن کے لیے قرآن سے فکری اور عملی تجدید کا مبارک مہینا بن جائے۔

(کوالالمپور، ملیشیا ۳۰ ؍ مارچ ۲۰۱۸ء)