Articles Level

سول اور فوجی قیادت میں ہم آہنگی


سول اور فوجی قیادت میں ہم آہنگی

پاکستان افواج کے سپہ سالار قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں مزید 3برس کی توسیع کر دی گئی ہے ۔عمران خان نے بحیثیت وزیر اعظم اپنا صوبدیدی اور آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے ۔مذکورہ فیصلہ جنرل جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے تین ماہ پہلے کیا گیا ہے۔

یہ توسیع انہونی نہیں ہے ۔ایسے ہونا ہی تھا۔جس دن عمران خان نے اقتدار سنبھالا تھا ،اسی روز توسیع کا فیصلہ ہو چکا تھا،پھر مختلف جانب سے پیشگوئیوں کو جاری رکھی گئی اوراب انہیں پیشنگوئیوں کو درست ثابت کر دکھایاہے ۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کی جا رہی تھی ۔اس وقت اِس بات کو لے کرعمران خان نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔جنرل راحیل شریف کو توسیع دینے کے بارے میں باقاعدہ ایک مہم چلی تھی ،کہ وہ ابھی اپنا عہدہ نہ چھوڑیں ،کیونکہ وہ دہشت گردوں کے خلاف حالت جنگ میں تھے ،مگر عمران خان نے حزب اختلاف میں رہتے ہوئے کسی جرنیل کی مدت ملازمت میں توسیع کی سختی سے مخالفت کی ۔لیکن یو ٹرن لینے میں شہرت رکھنے والے عمران خان نے اپنی حکومت میں اپنے خاص ایمپائر کو تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیاہے ۔ 

چاہیے تو تھا کہ عمران خان اقتدار کے حصول کے بعد سب کا اعتماد جیتے ،مگر اب تک ان کی ایسی کوئی کوشش سامنے نہیں آئی ۔جہاں قائد اقتدار کا فرض ہوتا ہے کہ باہمی اعتماد و انحصار کے حصول کے لئے ملک کی تعمیر اس نہج پر کرتا ہے ،جہاں ہر شہری میں اقدار کے حوالے سے ایک مشترکہ سمجھ ہو اور تعصب و نفرت کو ختم کرنے ، مساوات اور سب کے لئے یکساں مواقع کی فراہمی کے لئے ایک دوسرے پر بھروسہ ہو ۔ہر شہری پاکستان کے مستقبل کی تعمیر کے لئے اپنا سرگرم کردار ادا کرے اور وہ ملک کی جامع معاشی ترقی اور خوشحالی میں برابر کا شریک ہو۔لیکن ہمارے ہاں ایسی تعمیری سوچ کو پروان نہیں چڑھایا گیا بلکہ وہی پرانی روش کو اپناتے ہوئے شخصیات کو اہمیت دی گئی ۔عمران خان کا کہنا تھا کہ اداروں میں قوائد و ضوابط سے ہٹ کر کام کرنے سے ادارے برباد ہو جاتے ہیں ،مگر آج خود پر پڑی ہے تو انہی قوائد و ضوابط کو بری طرح سے روندا گیا ہے ۔ملک کے ساتھ 70برسوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے ۔یہاں یہ چوک ہمیشہ رہی اور بصیرت و دوربینی سے کام نہیں لیا گیا۔قائدین اپنی ہلکی پھلکی عارضی تشفی و طمانیت کے نشہ میں ہی مگن رہے۔اداروں کوذاتی مفادات کے لئے استعمال کیاگیا۔قومی سطح پر کوئی ادارہ نہیں رہا جو مستقل تحقیق کے ذریعہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات کا اندازہ لگا کر اس کے مدنظر ہمیں اپنی حکمت عملی میں ردو بدل کرنے کا مشورہ دیتا رہتا اور حکومت کی رہنمائی کرتا ۔

ایوب خان کے دور میں قابل سیاستدانوں کی بڑی کھیپ سامنے آئی ۔لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سیاست دانوں پر ذوال شروع ہواجو آہستہ آہستہ سیاست دان ختم ہو کر رہ گئے ہیں ۔پرانے سیاست دان تاریخ رقم کرتے تھے ۔انہیں ڈر رہتا تھا کہ میرے بعد مجھے تاریخ کن الفاظ میں یاد رکھے گی ،مگر آج کے بد دیانت سیاستدانوں نے سیاسی قیادت کو ذوال کی جانب دکھیل دیا ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ سیاستدانوں کی انتہائی ناقص کار کردگی کے باعث جب بھی ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہوئے ۔بال آخر فوج نے ہی اپنا کردار ادا کیا ہے ۔یعنی حکمرانوں کی نا اہلی اور بد دیانتی نے خود فوجی قیادت کو اقتدار میں آنے کی دعوت دی ۔ویسے تو صدر ایوب خان کے دور سے فوج ملک کے سیاسی اور خارجی فیصلوں میں براہ راست شریک رہی ہے ۔لیکن ماضی کی حکومتیں ظاہری طور پر فوجی مداخلت کو نہیں مانتی تھی،مگر موجودہ حکومت نے باقاعدہ فوج کی اعلیٰ اہمیت کو تسلیم کیا بلکہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہونے پر تشہیری مہم جوئی کی تاکہ مخالفین ان کی طاقت سے خوف ذدہ رہیں ۔جس کا ثبوت اکثر اعلیٰ سطح کے اجلاسوں اور وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر اعلیٰ حکام کی موجودگی کی صورت میں سامنے آتا رہا ہے ۔امریکہ کے دورے پر بھی عمران خان کا استقبال پاکستانی سفارت خانے نے کیا،امریکہ کا کوئی عہدیدار استقبال کے لئے نہیں آیااور جنرل قمر باجوہ کو پنٹا گون میں اعلیٰ سطحی استقبال سے نوازا گیا۔21 توپوں کی سلامی دی گئی ۔ساری دنیا نے دیکھا کہ امریکہ کا اصل دورہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا تھا ،مگر عمران خان دستور زمانہ نباہ رہے تھے ۔افسوس یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں تیرہ فوجی سربراہوں میں سے صرف چار کو سب سے زیادہ سینئر ہونے کی وجہ سے آرمی چیف کے عہدے پر ترقی دی گئی ،جبکہ باقی نو فوجیوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھائے گئے ۔جنرل ٹکا خان ، جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنی سینیاریٹی کی بنیاد پر آرمی چیف بنے ۔ذوالفقار علی بھٹو نے سات فوجی افسروں کی مدت ملازمت کو نظر انداز کر کے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا تھا۔پھر دنیا نے دیکھا کہ اسی جنرل ضیاء نے ذہین ترین لیڈر کو بھونڈے الزام میں
پھانسی پر لٹکا دیا ۔جسے بعد میں عدالتی قتل تسلیم کیا گیا۔میاں نواز شریف نے تین سینئر فوجیوں کو چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ جو بعد میں میاں نواز شریف کا تختہ الٹا کر اور پھانسی تک دینے پر آ گیا،مگر میاں نواز شریف کی قسمت اچھی کہ وہ بچ نکلے ۔جنرل پرویز مشرف نے اقتدارپر قبضہ کیا۔فوجی اور سیاستدانوں کی سیاست اور محاذ آرائی سے کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔آج پھر وہی غلطی دہرائی گئی ہے ۔مان لیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ پیچیدہ سیاسی حالات ،معیشت اور خارجہ پالیسی سنبھالنے کی وسیع سوچ کے مالک ہیں ۔وہ ملک میں پائی جانی والی خامیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں ،مگر یہ تمام تر کام تو حکومت کے ہیں ۔اس کا مطلب صاف ہے کہ حکمران نا اہل ہیں ۔اسی وجہ سے انہیں جنرل جاوید باجوہ جیسے مسیحا کی ضرورت ہے ۔لیکن کیا فوج میں صرف جنرل جاوید باجوہ ہی اتنے قابل ہیں کہ فوج کی کمان اور ملکی مسائل حل کر سکتے ہیں ۔ان کے علاوہ باری کے منتظر افسران کم فہم ہیں ۔ان میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ فوج کی قیادت کر سکیں اور ملک کو بہتر ڈگر پر لے جانے میں مدد گار ثابت ہو ۔فوج ایک اعلیٰ ادارہ ہے ۔یہاں جنرل برابر کی قابلیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ان میں 19-20کا بھی فرق نہیں کہا جا سکتا۔بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں ۔ان کی لیاقت،قابلیت اور حبّ الوطنی پر شک کی گنجائش نہیں ہوتی ،مگر جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملازمت میں تین سال کی توسیع نے یہ باور کروا دیا ہے کہ فوج میں ان کے علاوہ فوج اور ملک کے حالات کو سنبھالنے کا اہل نہیں سمجھا گیا۔حالانکہ کہ حقیقت یہ ہے ماضی میں بھی سول حکومتیں ایسے شخص کو آرمی چیف لگاتی رہی ہیں جس سے ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہ ہو۔یہ علیحیدہ بات ہے کہ ایسے انتخابات توقع کے مطابق ثابت نہیں ہوئے ہیں ۔جنرل باجوہ کو میاں نواز شریف نے سپہ سالار بنایا لیکن انہوں نے عمران خان کو سلیکٹ کیا۔جنرل باجوہ کو امریکا کی طرف سے شاندار استقبال نے باعث فخر بنا دیا ہے ۔

فوج کی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر سیاستدانوں ، تجزیہ نگاروں اور دانشوروں نے حکومتی اقدام کا خیر مقدم کیا ہے حالانکہ پہلے یہ سب اس بات کے سخت مخالف رہے ہیں ۔اپوزیشن پارٹیوں کو ایسا ہونے کا یقین تھا،مگر کسی موہوم امید کا انتظار بھی تھا ۔لیکن اب فوجی قیادت کے تسلسل کے بعد ان کے پاس تحریک کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کے لئے دونوں سیاسی پارٹیوں نے مولانا فضل الرحمٰن کا ساتھ دینا کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے ۔

اب حکومت سے غلطیوں کی امید بھی ہے ۔اگر اس لانگ مارچ کو روکنے کے لئے قیادت کو گرفتار کیا ،پھر اس کے رد عمل کو سنبھالنے کی ذمہ داری ان کی ہو گی ۔ویسے ماضی میں جتنے مذہبی احتجاج ہوئے اس کے پیچھے ایجنسیز کا ہاتھ رہا ہے ۔لیکن پہلی بار مولانا فضل الرحمٰن دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا مشترکہ احتجاج کر رہے ہیں ۔جس میں فوج کی پشت پناہی بھی نہیں ہو گی ۔اگر یہ ہو جاتا ہے ،اس میں کامیابی اور ناکامی کی بات نہیں ۔صرف ہو جاتا ہے تو ملک میں بہت بڑی تبدیلی کی نشاندہی کی علامت ثابت ہو گی ۔اگر نیب کے 90 روزہ ریمانڈ کے اختتام پر شاہد خاقان عباسی اور مریم نواز کی ضمانتیں ہو جاتیں ہیں اور وہ حکومت مخالف احتجاج میں شامل ہو جاتے ہیں ۔تو حکومت کو دشواری ہو سکتی ہے ۔
حکومت کرنے کا حقیقی حق صرف عوام کا ہے ۔جو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے سے کرتی ہے ۔کیونکہ الیکشن چوری کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے حالات خرابی کی طرف جاتے ہیں ۔آج فوج اور حکومت میں باہمی ہم آہنگی کی مثال قائم ہو چکی ہے ۔ایسا کوئی تاثر سامنے نہیں آیا جس سے حکومت کو فوج سے کوئی شکایت ہو ،کیونکہ حکومت کوئی کام کر ہی نہیں رہی ہے ۔تمام کام فوج کے سپرد ہیں ۔حالت یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر بھی وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر اکٹھے پریس کانفرنس کرتے ہیں۔فوج کا ترجمان انہیں ڈکٹیشن بھی دے رہا ہے ۔جو پوری دنیا نے ٹی وی سکرین پر دیکھا۔یہ ہیں وہ حالات جس کی وجہ سے جنرل جاوید باجوہ لازم و ملزوم ہیں ۔افسوس یہ ہے کہ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عمران خان کا فیصلہ غلط یا درست ہے ۔کیونکہ اس بات کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ عام سے لیٹر سے فوج کے سپہ سالار کو توسیع دینا،ان کے اختیار میں تھا․․․! 
 

 

 

26 اگست ۔ ۔ ۔ ۔یوم تاسیس جماعت اسلامی

ی کی تیسری دہائی میں اپنی فکر انگیز تحریروں ٗ تجزیوں اور تبصروں کے ذریعے برصغیر کے طول وعرض میں ہر مکتب فکر اور ہر مزاج کے پڑھے لکھے افراد کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ان کا یہ قلمی اور فکری سفر اخبار : تاج :سے شروع ہوکر جمعیت علماء ہند کے ترجمان؛ الجمعیت ؛سے چلتا ہوا ماہنامہ :ترجمان القرآن :تک اپنے قارئین سے خوب خوب داد وصول کرتا رہا ۔بعد ازاں انہوں نے اپنے ہم فکر اور ہم خیال افراد کو ایک تنظیم اور جماعت کے پلیٹ فارم پر منظم ہو کر کام کرنے کی دعوت دی ۔چنانچہ اس مقصد کے لیے 26 اگست 1941 ء کوہندوستان کے مختلف حصوں سے اسلامیہ پارک لاہور کے مقام پر 75 افراد اکھٹے ہوئے اور طویل غور وغوض اور مشاورت سے جماعت اسلامی کے نام سے ایک دینی تحریک قائم کرنے کا اعلان اور آغاز کیا گیا۔اس موقع پر شرکا ء نے جو ابتدائی سرمایہ اکٹھاکیا تھا وہ 74روپے اور 75 پیسے تھا۔اس موقع پرداعی دعوت اسلامی کو ہی اس عظیم الشان کام کی سربراہی کے لیے بھی چن لیا گیا۔یوں سید ابوالاعلےٰ مودودی ؒ اولین داعی کے بعد پہلے اور بانی امیر جماعت اسلامی بھی قرار پائے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ اپنی کتاب :جماعت اسلامی کا مقصد ٗ تاریخ اور لائحہ عمل :میں لکھتے ہیں ۔؛جماعت جس مقصد کے لیے قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کے پورے نظام کو اس کے تمام شعبوں(فکر و نظر ٗ عقیدہ وخیال ٗ مذہب واخلاق ٗ سیرت و کردار ٗ تعلیم وتربیت ٗتہذیب وثقافت ٗ تمدن و معاشرت ٗمعیشت و سیاست ٗقانون و عدالت ٗ صلح وجنگ اور بین الاقوامی تعلقات)سمیت خدا کی بندگی اور انبیاء کی ہدایت پر قائم کیا جائے ـ۔یہ مقصد اول روز سے ہمارے پیش نظر رہا ہے اور آج بھی یہی ایک مقصد ہے جس کے لیے ہم کام کر رہے ہیں۔اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہ ہمارے پیش نظر کبھی تھا نہ آج ہے ٗ ان شاء اﷲ نہ کبھی ہوگا۔آج تک جس کام میں بھی ہم نے دلچسپی لی ہے ٗ جس حد تک ہماری دانست میں اس کا تعلق اس مقصد سے تھا۔جس چیز کو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں ٗ اس کا جامع نام قرآن کی اصطلاح میں :دین حق : ہے ٗ یعنی وہ نظام زندگی (دین) جو حق (پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق اﷲ کی بندگی و اطاعت ) پر مبنی ہو۔ مگر اس کے لیے کبھی کبھی ہم نے :حکومت الہیہ:کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔جس کا مفہوم دوسروں کے نزدیک چاہے کچھ بھی ہو ٗ ہمار ے نزدیک صرف یہ ہے کہ اﷲ کو حاکم حقیقی مان کر پوری انفرادی و اجتماعی زندگی اس کی محکومیت میں بسرکرنا ٗ اس لحاظ سے یہ لفظ بالکل :اسلام : کا ہم معنی ہے۔اسی بنا پر ہم ان تینوں اصطلاحوں (دین حق ٗ حکومت الہیہ اور اسلام ) کو مترادف الفاظ کی طرح بولتے ہیں ٗ اور اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کا نام ہم نے اقامت دین ٗ شہادت حق اور تحریک اسلامی رکھا ہے۔جن میں سے پہلے دو لفظ قرآن سے ماخوذ ہیں اور دوسرا لفظ عام فہم ہونے کی وجہ سے اختیار کیا گیا ہے۔


مزید وضاحت

کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔:دین حق اور اقامت دین کے تصور میں بھی ہمارے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔ہم دین کو محض پوجا پاٹ اور چند مخصوص مذہبی عقائد و رسوم کا مجموعہ نہیں سمجھتے بلکہ ہمارے نزدیک یہ لفظ :طریق زندگی: اور :نظام حیات :کا ہم معنی ہے اور اس کا دائرہ انسانی زندگی کے سارے پہلوؤں اور تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ زندگی کوالگ الگ حصوں میں بانٹ کر الگ الگ اسکیموں کے تحت چلایا جاسکتا ہے۔ہمارا خیال یہ ہے کہ اس طرح کی تقسیم اگر کی بھی جائے تو وہ قائم نہیں رہ سکتی۔کیونکہ انسانی زندگی کے مختلف پہلوانسانی جسم کے اعضاء کی طرح ایک دوسرے سے ممیز ہونے کے باوجود آپس میں اس طرح پیوستہ ہیں کہ وہ سب مل کر ایک کل بن جاتے ہیں اور ان کے اندر ایک ہی روح جاری وساری ہوتی ہے۔یہ اگرخدا اور آخرت سے بے نیازی اور تعلیم انبیاء سے بے تعلق کی روح ہو تو پوری زندگی کا نظام ایک دین باطل بن کر رہ جاتا ہے اور اس کے ساتھ خدا پرستانہ مذہب کا ضمیمہ اگر لگا کر دکھا بھی دیا جائے تو مجموعی نظام کی فطرت بتدریج اس کو مضمحل کرتے کرتے آخر کار بالکل محو کردیتی ہے اور اگر یہ روح خدا اور آخرت پر ایمان اور تعلیم انبیاء کے اتباع کی روح ہو تو اس سے زندگی کا پورا نظام ایک دین حق بن جاتا ہے۔جس کے حدود عمل میں نا خدا شناسی کا فتنہ اگر کہیں رہ بھی جائے تو وہ زیادہ دیر تک پنپ نہیں سکتا۔اس لیے ہم جب :اقامت دین : کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض مسجدوں میں دین قائم کرنا ٗ یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کر دینا نہیں ہوتا ٗ بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھر اور مسجد ٗ کالج اور منڈی ٗ تھانے اور چھاؤنی ٗ ہائی کورٹ اور پارلیمنٹ ٗ ایوان

وزارت اور سفارت خانے

ٗ سب پر اس ایک خدا کا دین قائم کیا جائے ٗجس کو ہم نے اپنا رب اور معبود تسلیم کیا ہے اور سب کا انتظام اسی ایک رسولﷺ کی تعلیم کے مطابق چلایا جائے ٗجسے ہم اپنا ہادی مان چکے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہیے۔اپنی زندگی کے کسی پہلو کوبھی ہم شیطان کے حوالے نہیں کر سکتے۔ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے۔شیطان کا کوئی حصہ نہیں ہے :۔
تشکیل جماعت اسلامی کے دو سال بعد اکتوبر 1943 ء میں در بھنگہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے کہا۔: ہمارے لیے خارج سے بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے۔اس وجہ سے محض تنظیم اور محض ایک چھوٹے سے ضابطہ بند پروگرام پر لوگوں کو چلانے اور عوام کو کسی دھڑے پر لگا دینے سے ہمارا کام نہیں چلتا۔ہمیں ایک عوامی تحریک چلانے سے پہلے ایسے آدمی تیار کرنے کی فکر کرنی ہے۔جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیر افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دوہرے فرائض سنبھال سکیں۔یہی وجہ ہے کہ میں عوام میں تحریک کو پھیلا دینے کے لیے جاری نہیں کر رہا ہوں بلکہ میری تمام تر کوشش اس وقت یہ ہے کہ ملک کے اہل دماغ طبقوں کو متاثر کیا جائے اور ان کو کھنگال کر ایسے صالح ترین افراد کو چھانٹ لینے کی کوشش کی جائے جو آگے چل کرعوام کے لیے لیڈر بھی بن سکیں اور تہذیب و تمدن کے معمار بھی ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اعتراض بجا ہے کہ کثیر التعداد عوام کو اس نقشے کے مطابق بلند سیرت بنانے کے لیے مدت مدیددرکار ہے ٗ مگر ہم اپنے انقلابی پروگرام کو عوام کی اصلاح کے انتظار میں ملتوی نہیں کرنا چاہتے۔ہمارے پیش نظر کام کا جو نقشہ ہے وہ یہ ہے کہ عوام کی سربراہ کاری کے لیے ایک ایسی مختصر جماعت فراہم کر لی جائے جس کا ایک ایک فرد اپنے کریکٹر کی جاذبیت سے ایک ایک علاقے کے عوام کو سنبھال سکے ۔ ۔ ۔ تاکہ ان مرکزی شخصیتوں کے ذریعے سے عوام کی قوتیں مجتمع اور منظم ہو کر اسلامی انقلاب کی راہ میں صرف ہوں۔یہ ایک ٹھوس ٗ پائیدار اور ہمہ گیر انقلاب کا لازمی ابتدائی طریقہ ہے۔اس مرحلے کو صبر ہی سے طے کرنا پڑے گا :۔ ( روداد جماعت اسلامی ،حصہ اول )



مارچ 1944 ء میں اجتماع دارالاسلام

 

کے موقع پر بانی جماعت نے جو تقریر کی تھی اس کے حسب ذیل فقرے بھی قابل ملاحظہ ہیں ۔ :اب میں مختصر طور پر آپ کو بتاؤں گا کہ وہ کم سے کم ضروری صفات کیا ہیں جو اس دعوت کے لیے کام کرنے والوں میں ہونی چاہئیں۔قبل اس کے کہ آپ باہر کی دنیامیں خدا کے باغیوں کے مقابلے پر نکلیں ٗ اس باغی کو مطیع بنائیے جو خود آپ کے اندر موجود ہے اور خدا کے قانون اور اس کی رضا کے خلاف چلنے کے لیے ہر وقت تقاضا کرتا رہتا ہے۔اگر یہ باغی آپ کے اندر چل رہا ہے اور آپ پر اتنا قابو یافتہ ہے کہ آپ سے رضائے الہٰی کے خلاف اپنے مطالبات منوا سکتا ہے تو یہ بالکل ایک بے معنی بات ہے کہ آپ بیرونی باغیوں کے خلاف اعلان جنگ کریں ۔ ۔ ۔ حدیث نبوی ﷺکے مطابق اپنے آپ کو اس گھوڑے کی طرح بنائیے جو ایک کھونٹے سے بندھا ہوا ہو۔ وہ خواہ کتنا ہی گھومے پھرے ٗ بہر حال اس حد سے آگے نہیں جا سکتا جہاں تک اس کی رسی اسے جانے دیتی ہے۔ایسے گھوڑے کی حالت اس آزاد گھوڑ ے سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو ہر میدان میں گھومتا ہے ٗہر کھیت میں گھس جاتاہے اور جہاں ہری گھاس دیکھتا ہے وہیں پوری بے صبری کے ساتھ ٹوٹ پڑتا ہے۔ پس آپ آزاد گھوڑے کی سی کیفیت اپنے اندر سے نکالیں اور کھونٹے سے بندھے ہوئے گھوڑے کی کیفیت پیدا کریں :۔ ( روداد جماعت اسلامی ٗ حصہ دوم )

:آپ بحیثیت فرد اور بحیثیت جماعت اپنے نصب العین کے اتنے دل دادہ اور اپنے اصول و ضوابط کے اتنے پابند ہو جائیں کہ آپ کے گردوپیش جو لوگ کسی نصب العین کے بغیر بے اصول زندگیاں بسر کر رہے ہیں وہ آپ کی پابند اصول زندگی کو گوارہ نہ کرسکیں ۔ ۔ ۔ مگر میں بر وقت یہ واضح کردوں کہ یہ ساری کشمکش اس ذہنیت کے ساتھ ہونی چاہیے کہ جس کے ساتھ ایک ڈاکٹر بیماریوں سے کشمکش کرتا ہے ۔دراصل وہ بیمار سے نہیں بلکہ بیماری سے لڑتا ہے اور اس کی تمام جدوجہد ہمدردی کی روح سے لبریز ہوتی ہے:۔(روداد جماعت اسلامی ٗ حصہ دوم )

: ہمیں مسلسل اور پیہم سعی اور باقاعدگی کے ساتھ کام کرنے کی عادت ہونی چاہیے۔ایک مدت دراز سے ہماری قوم اس طریق کار کی عادی رہی ہے کہ جو کام کم سے کم وقت میں ہو جائے ٗ جو قدم اٹھایا جائے ہنگامہ آرائی اس میں ضرور ہو ٗ چاہے مہینہ دو مہینہ میں سب کیا کرایا غارت ہو کر رہ جائے۔اس عادت کو ہمیں بدلنا ہے ۔اس کی جگہ بتدریج اور بے ہنگامہ کام کرنے کی مشق ہونی چاہیے۔چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اگر آپ کے سپر کیا جائے تو بغیر کسی فوری اور نمایاں نتیجہ کے اور بغیر کسی داد کے آپ اپنی پوری عمر صبر کے ساتھ اس میں کھپا دیں۔ جہاد فی سبیل اﷲ میں ہر وقت میدان گرم ہی نہیں ہواکرتا ہے اور نہ ہر شخص اگلی صفوں میں لڑسکتا ہے۔ایک وقت کی میدان آرائی کے لیے بسا اوقات 25 ,25 سال تک لگاتار خاموش تیاری کرنا پڑتی ہے اور اگلی صفوں میں اگر ہزاروں آدمی لڑتے ہیں تو ان کے پیچھے لاکھوں آدمی جنگی ضروریات کے ان چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگے رہتے ہیں جو ظاہر بین نگاہوں میں بہت حقیر ہوتے ہیں :۔ ( روداد جماعت اسلامی ٗحصہ دوم )

محترم قارئین ! جماعت اسلامی محض ایک سیاسی یا مذہبی تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ احیائے اسلام کی عالمی تحریک ہے۔دنیا بھر کی اسلامی تحریکات مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کو اپنا فکری رہنماء اور قائد سمجھتی ہیں اور وہ سید مودودی ؒ کے لٹریچر سے استفادہ کرتی ہیں۔سید مودودی ؒ کی کتابوں کے تراجم دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کو سمجھنے اور جاننے کے حوالے سے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے عالم دین ہیں۔مختلف ممالک کی یونیور سٹیوں میں سید مودودیؒ کی کتابیں نصاب میں بھی شامل ہیں ۔جماعت اسلامی کے ہمہ جہت ٗ بھرپور اور منظم کام کو سمجھنے کے لیے زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کی کارکردگی اور اثرات پر ایک نظر ڈالنا اور ان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔کسی بھی جماعت ٗ تنظیم یا تحریک کی قوت ٗ کام ٗ کارکردگی اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے صرف انتخابات اور ان کے نتائج ہی واحد پیمانہ نہیں ہیں۔بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کے جو اثرات پائے جاتے ہیں ٗ ان کا مطالعہ اور تجزیہ بھی غیر جانبداری کے ساتھ کرناضروری ہے۔یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جماعت اسلامی کو ئی فرشتوں کی جماعت نہیں ہے ۔ اس کے عہدیدار اور اسے چلانے والے بھی انسان ہیں اور ہمارے ہی معاشرے کے عام افراد میں سے ہیں۔مختلف ایشوز اور معاملات کو سمجھنے اور ان کے بارے میں رائے قائم کرنے یا فیصلہ کرنے میں ان سے بھی غلطی اور کوتاہی ہو سکتی ہے۔اگر کوئی غلطی واضح کر دی جائے تو رجوع بھی کر لیا جاتا ہے ۔کسی بات یا فیصلے کو قیادت نے کبھی اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا ہے۔تنقیدا ورمحاسبہ کا جتنا اچھا اور کڑا نظام جماعت اسلامی کے اندر موجود ہے ٗکسی اور جماعت میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں پایا جاتا۔سب سے بڑی بات اور خوبی یہ ہے کہ اس جماعت میں موروثیت نام کی کوئی چیز کہیں بھی نہیں ہے۔اس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کو یہ اعزاز ب

حقیقت بھی پیش نظر

ھی حاصل ہے کہ اس کے اندر جمہوریت ہے اور ہر سطح کے انتخابات بڑی باقاعدگی اور شفاف طریقے کے ساتھ کروائے جاتے ہیں۔ یہاں عہدے کی خواہش رکھنے والا یا اس کے لیے کوشش کرنے والا نااہل قرار پاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عہدے کو ایک ذمہ داری اور تنظیمی ضرورت سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے۔قیادت اور کارکنان میں کوئی دوری یا فاصلہ نہیں ہوتا۔مقامی سے لے کر مرکزی قیادت تک جس وقت اور جب بھی چاہیں یاضرورت ہو تو رابطہ اور ملاقات کی جاسکتی ہے۔پروٹوکول اور واسطوں یا وسیلوں کی کوئی دیوار حائل نہیں ہے۔جماعت اسلامی میں پہلے تمام کاموں ٗ مہمات اور ایشوز کے حوالے سے ہر سطح پرمشاورت اورتیاریوں کا مکمل جائزہ اور بعد ازاں بھی تنقیدی جائزہ ضرور لیا جاتا ہے ۔اچھے پہلوؤں پر تحسین اور کمزوریوں کی نشاندہی کر کے آئندہ ان سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔مرکز سے لے کر صوبہ ٗ ضلع اور زون کی سطح پر منتخب مجالس شوریٰ امیر جماعت اور نظم کی رہنمائی اور مشاورت کا فریضہ ادا کرتی ہیں۔جماعت اسلامی نے جمہوری طریقے اور ووٹ کے ذریعے سے انقلاب اور تبدیلی کے راستے کا انتخاب کیا ہوا ہے اور دستور جماعت میں یہ بات واضح طور پر لکھ دی گئی ہے کہ جماعت اسلامی تبدیلی یا انقلاب کے لیے کسی قسم کی زیر زمین سرگرمیوں یا خفیہ ذرائع کو اختیار نہیں کرے گی۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ کرپشن سے پاک اور صاف ستھری قیاد ت صرف اور صرف جماعت اسلامی کے ہاں ہی ملتی ہے۔یہ بات جماعت اسلامی کے افراد نے ہر دور میں اور ہر قسم کے اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے بعد ثابت کی ہے۔ مندرجہ بالا خوبیاں اور صفات ایسی ہیں کہ جماعت اسلامی کے مخالفین بھی ان کا اعتراف کرتے ہیں ۔جماعت اسلامی فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر کام کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ایشوز پر تمام مسالک کے علماء کرام جماعت اسلامی کی دعوت پر اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ ماضی میں وطن عزیز میں شیعہ سنی مسالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی اور پھر خونریزی کو روکنے اور اس کے سد باب کے لئے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد (مرحوم) کی خدمات اور کوششوں کو سب لوگ سراہتے ہیں ۔ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل جیسی اتحاد و یکجہتی اور اخوت دینی پر مشتمل تنظیموں کے قیام اور سرگرمیوں کی روح رواں جماعت اسلامی ہی رہی ہے ۔ جماعت اسلامی اﷲ کی دھرتی پر اﷲ کے نازل کردہ نظام کے نفاذ کے لئے کوشاں ہے ۔ 
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭